News Details

30/10/2025

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ سیاسی اختلافات کو کبھی بھی آئینی نظام اور عدلیہ کی آزادی کے تقدس پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے۔وہ بدھ کے روز پشاور ہائی کورٹ میں منعقدہ بار ایسوسی ایشنز میں گرانٹ تقسیم کرنے کی تقریب سے بحیثیت مہمانِ خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ تقریب میں پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کو 5 کروڑ روپے جبکہ پشاور بار ایسوسی ایشن کو ایک کروڑ روپے کا چیک دیا گیا۔ خیبرپختونخوا بار کونسل کے ممبر ایڈوکیٹ علی زمان کی درخواست پر وزیرِ اعلیٰ نے پشاور بار ایسوسی ایشن کے لیے مزید 2 کروڑ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔ اسی طرح نوشہرہ، مہمند اور چارسدہ کی ضلعی بار ایسوسی ایشنز کو 50، 50 لاکھ روپے جبکہ پبی، شبقدر اور تنگی کی تحصیل بار ایسوسی ایشنز کو 25، 25 لاکھ روپے کے چیک دیئے گئے۔وزیرِ اعلیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیاست، انتخابات اور نظریات جمہوری زندگی کا حصہ ہیں، مگر آج یہاں آمد کا مقصد سیاست نہیں بلکہ آئین اور قانون کی بالادستی کے دفاع کے لیے آواز بلند کرنا ہے، جو اس وقت منظم طور پر کمزور کی جا رہی ہے۔26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ عدلیہ کو غیر موثر کر دیا گیا ہے اور عدالتی وقار و سینیارٹی کی روایات کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں تین رکنی بینچ کے احکامات کو بھی ایک نچلے درجے کا اہلکار رد کر دیتا ہے، جو صرف عدلیہ پرہی نہیں بلکہ پورے آئینی ڈھانچے پر حملہ ہے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی و سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کے لیے انہوں نے باضابطہ طور پر پنجاب ہوم ڈیپارٹمنٹ اور وفاقی حکومت کو درخواست دی تھی ، مگر اجازت نہ ملنے پر انہوں نے آئینی حق استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس نے ملاقات کی اجازت دی۔ تاہم عدالت کے واضح حکم کے باوجود ایک کانسٹیبل نے انہیں اڈیالہ جیل کے باہر روک دیا۔ وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ اگر ایک صوبے کا موجودہ وزیرِ اعلیٰ اس صورتحال کا سامنا کر سکتا ہے تو عام شہریوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا۔سہیل آفریدی نے کہا کہ ناانصافی کے مقابلے میں خاموشی خطرناک ہے، کیونکہ یہ بالآخر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ انہوں نے وکلا برادری سے اپیل کی کہ وہ عدلیہ اور آئین کے تحفظ کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ میدان میں آئیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ ہمارے ججز نے تحریری طور پر مداخلت کی شکایت کی ہے، اگر وہ اپنے فیصلے نافذ نہیں کروا سکتے تو انہیں عوام کے سامنے آنا چاہیے اور وکلا کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، جیسا کہ وہ ماضی میں کر چکے ہیں۔وزیرِ اعلیٰ نے قانون سازی کے عمل میں بار ایسوسی ایشنز کے ساتھ قریبی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ اگر کسی قانون میں بہتری کی گنجائش ہے تو تجاویز پیش کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مفاد پر مبنی قانون سازی کابینہ اور اسمبلی سے منظور کروانا ان کی ذمہ داری ہے، جسے وہ ہر صورت پورا کریں گے۔تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سہیل آفریدی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے آٹھویں جماعت تک یکساں نصاب نافذ کر دیا ہے اور 2026ءتک اسے بارہویں جماعت تک وسعت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم امیر و غریب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کیونکہ معیاری تعلیم تک مساوی رسائی ہی معاشرتی انصاف کی بنیاد ہے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر وزیرِ اعلیٰ محمد سہیل آفریدی نے کہا کہ ان کی حکومت آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آئین و قانون کی بالادستی کے لیے اپنی جدوجہد بھرپور انداز میں جاری رکھے گی۔