News Details
28/01/2018
مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کی جانب سے مساجد کے ائمہ کرام کیلئے 10 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ کو این جی او کا ایجنڈ اور رقم قراردینے کی شدید مذمت
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے مخصوص مذہبی سیاسی جماعت کی جانب سے مساجد کے ائمہ کرام کیلئے 10 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ کو این جی او کا ایجنڈ اور رقم قراردینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حلفاً کہتے ہیں کہاائمہ کرام کیلئے مختص کر دہ اعزازیہ خالصتاً صوبائی حکومت کے اپنے فنڈز سے دیا جارہا ہے اس میں کسی بھی ملک یا این جی اوکا کوئی حصہ نہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ مذکورہ مذہبی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے اسلام دوست پالیسی اقدامات سے خوفزدہ ہے اور اپنی جھوٹی ساکھ بچانے کیلئے صوبائی حکومت پر بے سروپا الزامات عائد کر رہی ہے لیکن وہ جان لے کہ شکست اس کا مقدر ہے اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بنوں میں ایک ارب روپے کے بنو ں اپ لفٹ بیوٹی فیکشن پروگرام کے افتتاح کے بعد سورانی کے علاقہ بازیدہ کوکی خیل اور میرہ خیل میں بڑے شمولیتی اجتماعات اور جامع المرکز اسلامی بنوں میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ بازیدہ کوکی خیل میں مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر حاجی حمید خان اور میرہ خیل کی معروف سیاسی شخصیت پختون یار نے اپنے خاندان اور سینکڑوں ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی میں شمولیت کااعلان کیا اور عمران خان اور پرویز خٹک کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ اجتماعات سے دوسروں کے علاوہ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ ملک شاہ محمد خان، نئے شامل ہونے والے حاجی حمید خان، پختون یار خان اور دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر صوبائی وزیر زراعت اکرام اﷲ گنڈاپور، پی ٹی آئی کے ضلعی عہدیداران و کارکنان اور عمائدین علاقہ کی کثیر تعداد بھی موجود تھی ۔ وزیراعلیٰ نے اپنے دورے میں نئی تحصیل ککی اور 40 کروڑ روپے کی لاگت کے تین مختلف روڈز کا افتتاح کرنے کے علاوہ بنوں رنگ روڈ کی تعمیر ، سپیشل فورس کے جوانوں کو ریگولر پولیس کا حصہ بنانے اور المرکز اسلامی میں ٹیوب ویل کی سولرائزیشن، اس میں ہاسٹل اور دو ہالوں کی تعمیر اور اس مرکز کے زیر اہتمام دو سکولوں کی اپ گریڈیشن کا بھی اعلان کیا۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت نے ریکارڈ قانون سازی کی ہے تاہم دیوانی مقدمات کو ایک سال کے اندر نمٹانے کیلئے 108 سالہ پرانے سول پروسیجر کوڈ کے رولز میں حالیہ ترمیم ایک انقلابی قدم ہے اور اس سے عام آدمی کو پی ٹی آئی کے وعدے کے مطابق انصاف کی راہ ہموار ہو گی جو ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ایماندار اور مخلص قیادت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہم ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہیں تاہم اب عمران خان کی شکل میں ایک مخلص اور ایماندار قیادت سامنے آئی ہے اور انشاء اﷲ2018میں برسراقتدار آکر ملک کو صحیح معنوں میں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے ۔ پرویز خٹک نے کہاکہ صوبائی حکومت تعلیمی اداروں میں تعلیم، ہسپتالوں میں صحت ، عدالتوں میں انصاف اور پولیس ، تھانوں میں عوام کی عزت اور سرکاری دفاتر میں رشوت و کرپشن سے پاک نظام کی ٹھو س بنیادیں رکھ دی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت صوبے بھر میں یکساں ترقیاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کے جدوجہد کا مرکز نظام کی تبدیلی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے، تحریک انصاف کی کامیابی کا پس منظر اور مقاصد کیا ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عوام ماضی کے کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے تنگ تھے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لایا ۔ انہوں نے کہاکہ جن ممالک میں مملکت کا نظام ٹھیک ہے اور اس کے ادارے درست سمت میں کام کررہے ہیں انہوں نے کم تر وقت میں ترقی کی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جو بھی آیا اُس نے لوٹ مار کی اور عوام کی خدمت کی بجائے اپنی ذات کیلئے کام کیااور اُن کا عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اُنہوں نے کہاکہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ تمام وسائل ہونے کے باوجود ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں کیا ترقیافتہ ممالک کے عوام کا دماغ ہم سے بہتر ہے یا شکل و صورت میں ہم سے اچھے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم ایمانداری کے ساتھ تجزیہ کریں تو اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ ترقی کیلئے صرف اور صرف ایماندار اور مخلص قیادت ہی ناگزیر ہے ۔ پرویز خٹک نے کہا اُنہیں عوام کے مسائل اور ضروریات کا بخوبی ادراک ہے اور وہ جہاں بھی جاتے ہیں عوام کے مطالبے کا انتظار کئے بغیر اس کی ترقی کا لائحہ عمل دے دیتے ہیں اور وہاں پیش کئے جانے والے سپاسنامے کا انتظار نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی ہے اور پسماندہ اضلاع پر خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ عوام کے احساس محرومی کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ کر سکے ۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمیں کرپشن زدہ ادارے اور تباہ حال انفراسٹرکچر ورثے میں ملا جس پر ہم آج تک کام کر رہے ہیں اور ہمیں اس میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے اور مزید گنجائش بھی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ چار عشروں کے دوران وہ اس سسٹم کا حصہ رہے ہیں اور اُس میں بغور جائزہ لیا ہے کہ ماضی کی کسی بھی سیاسی جماعت کو عوام کے بنیادی مسائل سے کوئی سروکار نہیں بلکہ سب کبھی روٹی، کپڑا، مکان، کبھی اسلام اور کبھی پختونوں کے نام پر اپنے اقتدار کی جنگ لڑ رہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ یہاں غریب کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم تعلیم کے میدان میں ہوا جہاں پر غریب کی زندگی پر سیاست کی گئی اور طبقاتی نظام تعلیم کو فروغ دیا گیا جس کی وجہ سے امیر کا بچہ افسر اور غریب کا بچہ بابو بن جاتا ہے ۔ کیا غریب عوام انسان نہیں ہیں یا اُن کا ملک کے وسائل پر کوئی حق نہیں آخر غریب کا استحصال کیو ں کیا گیا انہوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس ہم نے اپنی توجہ سرکاری سکولوں پر مرکوز کی جہاں غریب کے لاکھوں بچے پڑھتے ہیں ۔ ہم نے ان سکولوں میں ناپید سہولیات پر اربوں روپے خرچ کئے اور پرائمری کی سطح پر انگلش میڈیم کا اجراء کیا ۔ وزیراعلیٰ نے حکومت کے اسلامی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس صوبے میں ایم ایم اے نے بھی اسلام کے نام پر حکومت بنائی لیکن اُنہیں اسلام کیلئے کچھ بھی کرنا نصیب نہیں ہوا اور اب وہ اسلام کے نام پر دوبارہ عوام سے ووٹ لینے جائیں گے لیکن ہم نے اُن کے کرنے کے تمام کام کر دیئے ہیں اور وہ اب عوام کو ووٹ لینے کا کیا جواز پیش کریں گے انہوں نے کہا کہ ہم نے سود کے خلاف قانون سازی کی ، جہیز کو غیر قانونی قراردیا ، سکولوں میں ناظرہ قرآن اور باترجمہ قرآن لازمی قرار دیا، آئمہ کرام کیلئے اعزازیہ مقرر کیا۔مساجد کو سولرائزکیا اور علماء کرام کی سفارش پر پہلی محرم کو سرکاری چھٹی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہاکہ نام نہاد سیاسی علماء کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ اسلام کے نام پراسلام آباد تک رسائی چاہتے ہیں اور لوٹ مار اُن کا مشن ہے لیکن اب عوام جان چکے ہیں اور اب عوام کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا ۔ پرویز خٹک نے کہاکہ حکومت کے آخری سال لوگ برسراقتدار پارٹی سے دور بھاگتے ہیں لیکن یہ پی ٹی آئی ہی واحد جماعت ہے جس میں لوگ اب بھی جوق درجوق شامل ہورہے ہیں اور آج بنوں کی اہم سیاسی شخصیات کی پی ٹی آئی میں شمولیت اس کا بین ثبوت ہے ۔ وزیراعلیٰ نے عوام سے کہاکہ وہ آئندہ انتخابات میں موجودہ حکومت کے پانچ سالوں کا ماضی کی حکومتوں سے موازنہ کریں تو اُنہیں فرق واضح نظر آئے گا۔