News Details
13/03/2025
نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان 29-2025 (اڑان پاکستان) پر صوبائی مشاورتی ورکشاپ وزیر اعلیٰ ہاوس پشاور میں منعقد ہوئی۔
نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن پلان 29-2025 (اڑان پاکستان) پر صوبائی مشاورتی ورکشاپ بدھ کے روز وزیر اعلیٰ ہاوس پشاور میں منعقد ہوئی۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور ورکشاپ کے مہمان خصوصی جبکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر امیر مقام، صوبائی کابینہ اراکین، پارلیمنٹیرینز اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کے اعلیٰ حکام نے ورکشاپ میں شرکت کی۔ اڑان پاکستان پروگرام ملک کی پائیدار اقتصادی ترقی کےلئے پانچ اہم شعبوں پر فوکس کرتا ہے۔ ان شعبوں میں ایکسپورٹس، ایکویٹی، ای پاکستان، انرجی اینڈ انفراسٹرکچر اور انوائرمنٹ اینڈ کلائمیٹ چینج شامل ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اڑان پاکستان کی طرف گامزن ہے، ہم سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے پر عزم ہیں اور سیاسی اختلافات ہماری حکومت کو پاکستان کے استحکام اور اس کی معاشی ترقی کےلئے کام کرنے سے نہیں روکیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ امن و امان کا قیام سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہ ترقی کی بنیاد ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان کےلئے خیبرپختونخوا نے پہلے بھی کام کیا ہے اور آئندہ بھی اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت مالی نظم و ضبط، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی کی استعداد، اور سماجی مساوات کے ذریعے پائیدار ترقی کےلئے کام کر رہی ہے، ہم پائیدار ترقی کےلئے استعداد کے حامل شعبوں میں سرمایہ کاری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ہم نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 169 ارب روپے کا بجٹ سرپلس حاصل کیا۔اس کے علاوہ صوبے میں قرضے اتارنے کےلئے70 ارب روپے کا ڈیٹ مینجمنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے آئی ایم ایف کا ہدف کامیابی سے پورا کیا ہے۔ ہم پیداوری شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، اڑان پاکستان پروگرام سے ہم آہنگ کافی کام ہو چکا ہے، ہم اس سلسلے میں بھی پاکستان بھر میں لیڈ کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صنعتی زونز کےلئے 15 ارب روپے کی نجی سرمایہ کاری حاصل کی گئی،انصاف روزگار اسکیم کے تحت انٹر پرنیورز کو 20 کروڑ روپے کے قرضے دیئے گئے جس سے ایک لاکھ37 ہزار سے زائد افراد کو روزگارکے مواقع ملے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ معاشی ترقی کےلئے خیبر پختونخوا حکومت کا وژن " اڑان پاکستان" کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتا ہے، موجودہ صوبائی حکومت نے درابن، رشکئی، اور ہری پور کے صنعتی زونز کی بحالی عمل میں لے آئی ہے، ان اکنامک زونز میں 435 ملین روپے کی نجی سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پشاور اور مردان میں سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس کے قیام سے آئی ٹی برآمدات میں اضافہ ہوا، معدنیات کی نیلامی سے صوبائی حکومت کو 5 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوئی۔ اسی طرح علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ان کی حکومت نے خواتین کی قیادت میں چلنے والے 50 ہزار سے زائد کاروباروں کو بلاسود قرضے فراہم کیے، 81 ہزار نوجوانوں کو انجینئرنگ، ڈیجیٹل اسکلز اور تکنیکی شعبوں میں تربیت دی گئی جبکہ پانچ لاکھ سے زائد طلبہ صوبائی حکومت کے تعلیم کارڈ پروگرام سے مستفید ہوئے۔ انہوں مزید اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے صحت کارڈ پلس کو بحال کیا اور ایک کروڑ خاندانوں کو 30.4 ارب روپے مالیت کی مفت طبی سہولیات فراہم کئیں، دو لاکھ سے زائد نئے گھروں کی تعمیر میں حکومتی مدد فراہم کی گئی۔ اسی طرح صوبائی حکومت ای گورننس اور آئی ٹی کے فروغ کےلئے ٹھوس اقدامات اٹھا رہی ہے،پامیر۔ڈیجیٹل پے منٹ گیٹ وے، ای-ڈومیسائل سسٹم، اور ڈیجیٹل ٹیکس کولیکشن سسٹم متعارف کرایا گیا ہے، 85ہزار سے زائد نوجوانوں کو آئی ٹی فیلڈز میں تربیت دی گئی تاکہ انہیں جدید مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق تیار کیا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیوں کے فروغ کےلئے جوان مراکز کو بھی 55 کروڑ روپے کے فنڈز فراہم کیے گئے۔ اس کے علاوہ ڈھائی لاکھ گھرانوں کو سولر سسٹم فراہم کر رہے ہیں، ایک ہزار اسکولوں کو سولر سسٹم فراہم کیا گیا ہے، اگلے ایک سال میں آٹھ ہزار مزید سکولوں کی سولرائزیشن کی جائے گی، اسی طرح چار ہزار مساجد کو سولر سسٹم فراہم کیا گیا ہے، مزید آٹھ ہزار کو فراہم کیا جائے گا، اس کے علاوہ سرکاری دفاتر، کالجز، یونیورسٹیوں، مساجد اور مدارس وغیرہ کی بھی سولرائزیشن کی جارہی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے دیگر شعبوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں مائننگ کیڈسٹرل سسٹم متعارف کرایا گیا، جس کے تحت 3,000 سے زائد کانوں کی نقشہ بندی کی گئی، اس اقدام سے 5.7 ارب روپے کی رائلٹی حاصل کی گئی۔ 365 کلومیٹر طویل پشاور-ڈی آئی خان موٹروے کےلئے زمین کی خریداری کا عمل شروع کیا گیا، بی آر ٹی سروس میں بہتری لائی گئی، یومیہ مسافروں کی تعداد میں ایک لاکھ 50 ہزار تک اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا فارسٹیشن پروگرام کو توسیع دی گئی اور جنگلات کے رقبے میں 12% اضافہ کیا گیا،25 ارب روپے کی لاگت سے فوڈ سیکیورٹی سپورٹ پراجیکٹس پر عمل درآمد کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اڑان پاکستان کے اقتصادی ترقی کے ایجنڈے کی مکمل حمایت کرتا ہے، وفاقی حکومت بھی خیبر پختونخوا کو اس کے آئینی حقوق دینے کےلئے عملی اقدامات کرے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 2018 سے وفاقی حکومت نے اے آئی پی کے تحت منصوبوں کے لیے 700 ارب روپے میں سے صرف 215.3 ارب روپے مختص کیے جن میں سے بھی اب تک صرف 132.1 ارب روپے جاری کیے گئے۔رواں مالی سال میں AIP کے لیے 42.3 ارب روپے مختص کیے گئے، لیکن صرف 6.35 ارب روپے جاری ہوئے۔ اسی طرح رواں مالی سال ضم اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 27 ارب روپے مختص کیے گئے لیکن اب تک صرف 9.41ارب روپے جاری کیے گئے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وفاق ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کےلئے بقیہ فنڈز ہنگامی بنیادوں پر جاری کرے، پی ایس ڈی پی کے تحت صوبائی حکومت کے 36 ارب روپے کے 7 منصوبوں کےلئے صرف 2.65 ارب روپے مختص کیے گئے، جبکہ اب تک اس مد میں صرف 1.0 ارب روپے جاری ہوئے۔ علاو ¿ہ ازیں دیگر صوبوں کو پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبے دیئے گئے، مگر خیبر پختونخوا کو کوئی نیا منصوبہ نہیں دیا گیا، پی ایس ڈی پی میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبرپختونخوا کو فنڈز کی الوکیشن میں بہت کم حصہ دیا گیا، سندھ کیلئے 49.2 ارب روپے،پنجاب کیلئے7.10 ارب روپے،بلوچستان کیلئے 23.81 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت خیبر پختونخوا کےلئے فنڈز کی الوکیشن میں اضافہ کیا جائے اور صوبے میں پی ایس ڈی پی منصوبوں کی تکمیل کیلئے فنڈز بروقت جاری کئے جائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے واضح کیا کہ چشمہ رائٹ بینک کینال منصوبہ صوبے کی فوڈ سکیورٹی کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے،اس منصوبے کیلئے نہ ہی مناسب فنڈز مختص کئے گئے اور نہ ہی رابط نہروں کی تعمیر کی گئی۔ رواں مالی سال منصوبے کےلئے17.51 ارب روپے مختص کیے گئے، لیکن اب تک کوئی فنڈ جاری نہیں ہوا، خیبر پختونخوا حکومت اپنے وسائل سے اس منصوبے کیلئے 60 ارب روپے کا حصہ ادا کرے گی جبکہ منصوبے کیلئے درکار زمین کیلئے 500 ملین روپے جاری کر چکی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ منصوبے کی الائنمنٹ کی تفصیلات صوبائی حکومت سے شیئر نہیں کی گئیں۔اسی طرح واپڈا کی طرف سے سرگرمیوں کیلئے طے شدہ ٹائم لائنز پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے منصوبے کیلئے 17.5 ارب روپے مختص کرنے کا وعدہ کیا، لیکن رواں پی ایس ڈی پی میں صرف2.5 ارب روپے رکھے گئے اور وہ بھی نہیں دئے گئے، ہم اڑان پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن صوبے کے ساتھ مساوی سرمایہ کاری اور فنڈنگ یقینی بنانے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
<><><><><><>