News Details

13/03/2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپورکی زیر صدارت گزشتہ روز وفاق سے جڑے صوبے کے مالی معاملات سے متعلق ایک اہم اجلاس

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپورکی زیر صدارت گزشتہ روز وفاق سے جڑے صوبے کے مالی معاملات سے متعلق ایک اہم اجلاس وزیراعلیٰ ہاوس پشاور میں منعقد ہوا جس میں متعلقہ حکام کی جانب سے وزیراعلیٰ کو وفاق کے ذمے صوبے کے واجبات اور دیگر مالی امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم کے علاوہ چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری سید امتیاز حسین شاہ، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری امجد علی خان ، سیکرٹری خزانہ عامر سلطان ترین ، سیکرٹری توانائی نثار احمد اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اے جی این قاضی فارمولہ کے تحت پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے 1510 ارب روپے واجب الادا ہیں جبکہ نیشنل گرڈ کو بیچی جانے والی صوبائی حکومت کی بجلی کی مد میں 6 ارب روپے بقایا جات ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ سابقہ قبائلی اضلاع کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام ہوگیا ہے مگر اب تک مالی انضمام نہیں ہوا۔ سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام سے صوبے کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ، صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا حصہ 19.64 فیصد بنتا ہے جبکہ صوبے کو این ایف سی کا 14.16 فیصد دیا جارہا ہے۔ صوبے کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 262 ارب روپے ملنے چاہئیں۔ مزید بتایا گیا کہ ضم اضلاع کے دس سالہ ترقیاتی پلان کے تحت صوبے کو پانچ سو ارب روپے کے مقابلے میں اب تک صرف 103 ارب روپے ملے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو صوبے کے مالی معاملات کووفاقی حکومت کے ساتھ اٹھانے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دینے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کرکے پلان آف ایکشن مرتب کیا جائے جبکہ وفاق سے جڑے صوبے کے مالی معاملات کا کیس مو ¿ثر انداز میں پیش کرنے کے لئے تمام متعلقہ دستاویزات مکمل رکھی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے واجبات اور آئینی حقوق کے حصول کےلئے تمام دستیاب آئینی اور قانونی فورمز پر بھرپور آواز اٹھائی جائے گی جبکہ وفاقی حکومت کے ساتھ معاملہ مو ¿ثر انداز میں اٹھانے کے لئے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے۔ علی امین گنڈا پور نے واضح کیا کہ وفاق سے شنوائی نہ ہونے کی صورت میں عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا ۔ <><><><><><>