News Details
31/08/2023
نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 9 واں اجلاس بدھ کے روز سول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا
نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 9 واں اجلاس بدھ کے روز سول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا۔نگران کابینہ اراکین اور چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری کے علاوہ متعلقہ انتظامی سیکرٹریز نے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاءسے اپنے خطاب میں نگران وزیراعلیٰ نے نئے کابینہ اراکین کو خوش آمدید کہا۔ نگران حکومت کے آئینی و قانونی اختیارات کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ آئین اور الیکشن کمیشن ایکٹ میں نگران حکومت کا مینڈیٹ واضح ہے، نگران صوبائی حکومت اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں تک محدود رہے گی، یہ مکمل طور پر غیر سیاسی حکومت ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر کام کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ نگران صوبائی حکومت کو امن و امان اور مخدوش مالی صورتحال کے دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا نگران حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔اعظم خان کا کہنا تھا کہ آمدن کے سلسلے میں خیبر پختونخوا کا زیادہ تر دارومدار وفاقی حکومت پر ہے،سابقہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد صوبے کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور صوبے کی موجودہ آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں خیبر پختونخوا کا حصہ 19 فیصد بنتا ہے لیکن اس وقت صوبے کو این ایف سی کا صرف 14.6 فیصد حصہ مل رہا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے وقت صوبے کو این ایف سی کا تین فیصد دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جبکہ ضم اضلاع کی تیز رفتار ترقی کے لئے صوبے کو سالانہ 100 ارب روپے دینے کابھی وعدہ ہوا تھا۔گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اس مد میں وفاق کی طرف سے صوبے کے 500 ارب روپے بنتے ہیں لیکن اب تک صوبے کو اس مد میں صرف 103 ارب روپے ادا کئے گئے ہیں اوراس صورتحال میں قبائلی اضلاع کی ترقی ممکن نہیں ہے۔اعظم خان نے کہاکہ اے جی این قاضی فارمولہ کے تحت پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں اب تک وفاق کے ذمے 1200 ارب روپے واجب الادا ہیںاور بحیثیت وزیر اعلیٰ یہ تمام معاملات تحریری طور پر گذشتہ وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھا چکا ہوں۔انہوں نے صوبائی وزیر خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ نگران وفاقی حکومت کے ساتھ ان تمام معاملات کا فالو اپ کریں۔اپنی حکومت کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ نگران صوبائی حکومت روزمرہ کے حکومتی معاملات میں شفافیت، میرٹ اور بہتر طرز حکمرانی پر خصوصی توجہ دے گی اور اس سلسلے میں انتظامی سیکرٹریوں کو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں. انہوں نے محکموں کے انتظامی سیکرٹریز پر زور دیا کہ وہ حکومتی معاملات میں اپنے متعلقہ وزرائ کو صحیح اور دیانتدارانہ مشورے دیں،وزرائ اور سیکرٹریز اپنے محکموں میں بہتر طرز حکمرانی پر خصوصی توجہ دیں اور محکموں میں اگر مالی بے ضابطگیوں کے کوئی کیسز ہوں تو ان کی نشاندہی کرکے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی عمل میں لائیں۔ بدھ کے روز نگراں صوبائی کابینہ کے ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں 7 نکات شامل تھے جن میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے پی سی۔I میں نظر ثانی کی منظوری، پشاور میں فورینسک سائنس لیبارٹری کا قیام،انسداد دہشتگردی عدالتوں کے لیئے ایڈمنسٹریٹو جج کی نامزدگی اور پولیس پبلک سکول کے اساتذہ کے کیس سے متعلق امور شامل تھے۔ نگراں صوبائی کابینہ نے اپنے اجلاس میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے پی سی ون کا جائزہ لیتے ہوئے جانی خیل بنوں پولیس سٹیشن کے پی سی ون میں نظر ثانی اور پشاور میں فورینسک سائنس لیبارٹری کے قیام کے لئے سپلیمنٹری گرانٹ کی فراہمی کی منظوری دی۔ان منصوبوں کی تکمیل سے خیبر پختونخوا میںدہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکنے اور امن و امان برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح نگران کابینہ نے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے لئے چیف جسٹس پشاور ہائی کو رٹ کی سفارش پر سینئر جج جسٹس اشتیاق ابراہیم خان کی بطور ایڈمنسٹریٹیو جج نامزدگی کی منظوری دی۔ کابینہ نے ضلع کوہاٹ میں قائم کئے جانے والے وومن اینڈ چلڈرن لیاقت میموریل ٹیچنگ ہسپتال اور نیشنل پروگرام فار ایمپرومنٹ آف واٹر کورسز ان پاکستان فیزII- منصوبوں کے پی سی ون کو دوبارہ نظر ثانی کے لیئے صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی (PDWP) کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اجلاس میں صوبائی محتسب آفس کے ملازمین کے سروس رولز کا ایجنڈا بھی زیر غور آیا جس پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی سربراہی میں سب کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں پولیس پبلک سکول کے اساتذہ کے عدالت میں کیس کے حوالے سے قائم کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں۔ کابینہ نے ان سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے عمل در آمد یقینی بنانے کی لئے نگرں صوبائی وزیر سید مسعود شاہ کی سر براہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔