News Details

31/08/2022

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے منگل کے روز ضلع نوشہرہ اور چارسدہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے منگل کے روز ضلع نوشہرہ اور چارسدہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا اور ریلیف کیمپس میں سیلاب متاثرین سے ملاقات کی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ سیلاب کے باعث گھروں کے بے دخل ہونے والے افراد کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور سیلابی پانی ختم ہوتے ہی تباہ شدہ گھروں کی بحالی کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت نے عمران خان پر مجرمانہ کیسز بنائے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ، عوام عمران خان پربھرپور اعتماد کرتے ہیں، جس کا واضح ثبوت چند گھنٹوں میںہی اربوں روپے اکٹھا ہونا ہے جو پورے پاکستان میں سیلاب زدگان پر خرچ کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تباہ شدہ مکانات، سڑکیں، پل اور فصلوں کا تخمینہ لگایا جارہا ہے جس کے مطابق صوبائی حکومت فنڈز ریلیز کرے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم عوامی نمائندے ہےں اور عوام کے درمیان رہ کر ان کی خدمت کریں گے۔ صوبائی حکومت کی گڈ گورننس پالیسی ، ریسکیو 1122 کے قیام اور فلڈ پروٹیکشن والز کی تعمیرات کی وجہ سے حالیہ سیلاب سے نقصانات کم ہوئے ہیں۔انہی اقدامات کی بدولت کافی حد تک بچت ہوئی ہے ورنہ یہ سیلاب 2010 کے سیلاب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتا۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر متعلقہ حکام کو میڈیکل ریلیف کیمپ میں فوری طور پر جنریٹر کی سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ متاثرین کو تمام تر سہولیات اور ریلیف کی فراہمی صوبائی حکومت کا اولین ہدف ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت درکار وسائل ترجیحی بنیادوں پر فراہم کر رہی ہے۔صوبائی حکومت ریلیف سرگرمیوں کے لیے ایک ارب روپے پہلے سے ریلیز کر چکی ہے جبکہ محکمہ ریلیف کو مزید 2.5 ارب روپے فراہم کئے جارہے ہیں جس کی صوبائی کابینہ باضابطہ منظوری دے چکی ہے ۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کو محکمہ ایریگیشن اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کی طرف سے سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور ریلیف سرگرمیوں سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ حکام نے آگاہ کیا کہ ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے بروقت اقدامات کی بدولت ضلع نوشہرہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، حساس علاقوں سے عوام کو بروقت محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔اپنے گھروں سے منتقل ہونے والے اور دیگرمتاثرین کو خوراک اور دیگر ضروری سامان بھی بروقت فراہم کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ مکانات، فصلوں اور دیگر نقصانات کی اسسمنٹ جاری ہے جو جلد مکمل کر لی جائے گی۔ حکام نے امان گھڑھ میں قائم میڈیکل ریلیف کیمپ میں وزیراعلیٰ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کیمپ میں تمام تر سہولیات دستیاب ہیں۔ میڈیکل ریلیف کیمپ میں دو میڈیکل افسران میل اور فیمیل بمع سٹاف چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر چہ 2010 کے سیلاب کی نسبت یہ سیلاب زیادہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ضلع نوشہرہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، جس کا کریڈٹ ضلعی انتظامیہ اور دیگر حکام کو جاتا ہے اور وہ بروقت اور پیشگی حفاظتی اقدامات یقینی بنانے پر خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت کی حکمت عملی سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ بھر میں متاثرین کو فوری ریلیف کی فراہمی ترجیح ہے۔تمام متاثرہ اضلاع میں جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمیوں کو معاوضہ دیا جا چکا ہے۔علاوہ ازیں فصلوں، مکانات اور دیگر نقصانات کی اسسمنٹ جاری ہے، سب کو نئے ریٹ کے مطابق ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ محمود خان نے واضح کیا کہ دوسرے مرحلے میں متاثرین کی بحالی اور آبادکاری کا کام کیا جائے گا۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ ایک سال کے اندر بحالی کا عمل مکمل کر لیا جائے،اس مقصد کے لیے درکار وسائل ترجیحی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب وہ وزیراعلیٰ بنے تو بعض سیاسی نجومیوں نے پیش گوئیاں شروع کر دیں کہ یہ تین چار ماہ سے زیادہ حکومت نہیں چلا پائے گا۔ مگر الحمد للّہ آج میری حکومت کے چار سال مکمل ہو گئے، اس عرصہ کے دوران سابقہ فاٹا کے صوبے میں انضمام کی تکمیل اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ تمام اضلاع کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نظر آنے والے اقدامات کیے گئے ہیں۔ میں ایک عوامی آدمی ہوں اور انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ موجودہ سیلابی صورتحال میں بھی گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل فیلڈ میں ہیں اور تمام سرگرمیوں کی براہ راست مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ کوشش ہے کہ تمام متاثرہ اضلاع میں متاثرین کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے، اس مقصد کے لیے وزیراعلی سیکرٹریٹ میں فلڈ کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے اور صوبائی حکومت کا ہیلی کاپٹر سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے مختص کر دیا گیا ہے جو ایک تاریخی اقدام ہے۔ دریاو ¿ں کے قریب تجاوزات کے حوالے سے ایک سوال پر وزیراعلی نے کہا کہ ٹانک، ڈی آئی خان اور سوات میں دریاو ¿ں کے دھانوں اور آبی گذرگاہوں پر قائم انفراسٹرکچر کو زیادہ نقصان پہنچا اور یہ زیادہ تر انفراسٹرکچر جیسے ہنی مون ہوٹل وغیرہ ہماری حکومت سے پہلے سے قائم تھا۔جب ہماری حکومت آئی تو تجاوزات کے خلاف مہم شروع کی گئی اور دریاو ¿ں کے کناروں اور قدرتی آبی گذرگاہوں گاہوں پر تعمیرات پر پابندی لگا دی گئی۔ اس موقع پر سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ بالکل وفاقی حکومت کے عمل سے یہی تاثر سامنے آتا ہے کہ وہ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے، وفاق کی طرف سے دیگر متاثرہ صوبوں کے لیے پیکج کا اعلان کیا گیا ہے جو بہت اچھی بات ہے، ہم اس پر خوش ہیں کیونکہ دیگر صوبوں کے لوگ بھی ہمارے بہن بھائی ہیں۔ تاہم ہم اتنا باور کرانا چاہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا بھی اسی ملک کا حصہ ہے ، ہمیں بھی ہمارا حق ملنا چاہیے۔صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی، وزیراعلی کے مشیر خلیق الرحمان ،اراکین صوبائی اسمبلی ادریس خٹک، ابراھیم خٹک، ضلعی انتظامیہ، ایریگیش اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔