News Details
29/12/2019
وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ضم شدہ قبائلی اضلاع کی 131 غیر فعال صحت سہولیات کو فعال کرنے کیلئے زیر التواءایس این ایز کوتیزی سے حتمی شکل دینے کی ہدایت کی ہے
وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ضم شدہ قبائلی اضلاع کی 131 غیر فعال صحت سہولیات کو فعال کرنے کیلئے زیر التواءایس این ایز کوتیزی سے حتمی شکل دینے کی ہدایت کی ہے تاکہ صوبائی حکومت کی اولین ترجیح کے مطابق قبائلی عوام کو صحت کی معیاری سہولیات اور ریلیف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے 60 ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز اور ڈیٹا اکھٹا کرنے والے معاونین کی بھرتی کا عمل آئندہ ماہ جنوری کے آخر تک مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ قبائلی عوام کو صحت کی معیاری خدمات کی فراہمی کیلئے نگرانی کا عمل مضبوط کیا جا سکے۔ انہوںنے کہاکہ کارکردگی کے کلیدی پیمانوں کے مطابق صحت کے اداروں کی باقاعدہ نگرانی نہایت ناگزیر ہے۔انہوںنے ٹیسٹنگ ایجنسی کے ذریعے شعبہ صحت میں خالی آسامیوں پر بھرتیوں میں تیزی لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ہدایت کی کہ قبائلی اضلاع کے 7 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور 4 تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں جدید آلات کی تنصیب کا عمل بھی جلد از جلد مکمل کیا جائے تا کہ بیماریوں کی جلد تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔ وہ وزیراعلیٰ ہاو ¿س پشاور میںایک اہم اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔وزیر صحت ہشام انعام اﷲ، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم ضیاءاﷲ بنگش، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ضم شدہ اضلاع اجمل وزیر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری شکیل قادر، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ، ضم شدہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی نصیر وزیر، غزن جمال، محمد شفیق، سید اقبال میاں، انور زیب خان، ایس ایس یو کے سربراہ صاحبزادہ سعید اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی ۔وزیراعلیٰ کو ضم شدہ علاقوںکے صحت کے شعبے میں اب تک ہونے والی پیشرفت کے بارے میںتفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ ضم شدہ اضلاع میں صحت کی سہولیات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ نئے ضم شدہ اضلاع میں صحت کی کل 1108 سہولیات موجود ہیں جن میں سے 869 سہولیات فعال ہیں۔ بقیہ غیر فعال صحت کی سہولیات کو فعال بنانے کے لئے اقدامات جاری ہیں۔ 7 ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور 4 تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں کمزوریوں کو دور کرنے ، ڈی ایچ کیو / سیکنڈری سطح کے ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی ، معیاری طبی اور غیر طبی سازوسامان کی فراہمی ، ادویات کی فراہمی اور سٹاف کی بھرتی کیلئے متعدد سکیمیں پہلے سے ہی تیز رفتار عمل درآمد پلان اور سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کی گئی ہیں۔وزیر اعلی نے ہدایت کی کہ صحت کے شعبے میں جاری تمام سرگرمیاںتیز رفتاری سے مکمل کی جائیں اور اس مقصد کیلئے حقیقت پسندانہ ٹائم لائنز بھی طے کی جائیں۔ قبائلی عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے مجموعی عمل کو حکومت کی ترجیحات کے مطابق تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ لوگوںکی صحت سے متعلق منصوبوں میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قبائلی اضلاع میں صحت کے اداروں میں عملے کی کمی کو دور کرنے کے لئے جاری اقدامات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بی پی ایس 1 سے بی پی ایس 15 تک کی تقریباً200 آسامیوں اور میڈیکل آفیسرز کی 100 آسامیوں پر بھرتی کا عمل جاری ہے۔ وزیر اعلی نے اس مقصد کے لئے مکمل اور حقیقت پسندانہ ٹائم لائنز طلب کرتے ہوئے کہا کہ عملے کی بروقت فراہمی ترجیح ہونی چاہئے تاکہ لوگوں کو بہترین انداز میں سہولیات فراہم کی جائیں۔اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ ضم شدہ علاقوں کے لوگوں کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے نگرانی کا مضبوط طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے ، دسمبر2018 میں 7 ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز اور ڈیٹا اکھٹا کرنے والے معاونین کو تعینات کیا گیا تھاجس کے نتیجے میںستمبر 2019 تک 161 صحت کی سہولیات کے 555 دورے کیے گئے تھے اوررپورٹس تیار کی گئی تھیںجن میں مختلف خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ آئی ایم یو کی رپورٹ کی سفارشات پر ، محکمہ پہلے ہی کارروائی کرچکا ہے ، تاہم نگرانی کے افسران کی کمی کی وجہ سے مزید 60 ڈی ایم اوز اور ڈی سی ایز کے لئے نظر ثانی شدہ پی سی ون کی منظوری لی گئی اور این ٹی ایس کے ذریعہ بھرتی کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ کا عمل جاری ہے جو جنوری 2020 کے آخر تک مکمل ہوجائے گا۔ اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ تیز رفتار عمل درآمد منصوبے کے تحت ضم شدہ اضلاع کے صحت کے شعبے کے لئے 10.019ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سالانہ ترقیاتی پروگرام2019-20 کے تحت 76 سکیموں کے لئے 1758.493 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے 17 اسکیمیں تکمیل کے مراحل میں ہیں۔وزیراعلیٰ نے محکمہ صحت کو ہدایت کی کہ وہ صحت کے حوالے سے اقدامات پر پیشرفت تیز کریں تاکہ ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کو ان کی توقعات کے مطابق سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جاری ترقیاتی سکیموں کی تکمیل میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی