News Details

12/09/2019

ڈینگی کی روک تھام خیبر پختونخوا حکومت کی بڑی کامیابی قرار

ڈینگی کی روک تھام خیبر پختونخوا حکومت کی بڑی کامیابی قرار صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے حالیہ برس مؤثر اقدامات کے باعث صوبے بھر میں ڈینگی بخار کے کیسز میں نمایاں کمی اور ایک بھی مریض کے بیماری کے ہاتھوں جاں بحق نہ ہونے کو حکومت کیلئے بڑی سکسیس سٹوری قرار دیا گیا۔ بارہ ستمبر بروز جمعرات وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز، محکمہ صحت ارشد خان کی جانب سے ڈینگی وائرس کے روک تھام کی مہم کے حوالے سے دی گئی پریزنٹیشن میں کہا گیا کہ اس سال جنوری سے شروع کی گئی مہم کے نتیجے میں انہیں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وزیراعلٰی میں دی گئی پریزنٹیشن میں انہوں نے دوہزار سترہ کا حوالہ دیا اوراُس سال کے اعداد و شمار کا رواں برس سے موازنہ کیا، انہوں نے بتایا کہ دوہزار سترہ میں ڈینگی کے ایک لاکھ کیس ہزار تراسی (۱۲۱۰۸۳) کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں چوبیس ہزار نو سو اڑتیس (۲۴۹۳۸) مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی، جبکہ ستّر افراد بیماری کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے۔ پشاور سب سے زیادہ متاثر رہا جہاں تیئیس ہزار پانچ سو اکتالیس افراد یعنی چورانوے فیصد مریضوں میں بیماری کی تصدیق ہوئی۔ اس سال جبکہ تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ آٹھ سے نو ہزار کیسز رپورٹ ہوں گے، اس کے برعکس اٹھارہ سو نواسی کیسز موصول ہوئے جن میں سے صرف آٹھ سو اکیانوے میں بیماری کی تصدیق ہوئی، انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ بیماری کے باعث ایک بھی مریض کئ موت نہیں ہوئی۔ ابھی بھی کیسز کا بڑا حصہ پشاور میں رپورٹ ہوا ہے، پشاور کی یونین کونسلز شیخان، شیخ محمدی، آچینی، سربنڑ، سانگو، اور کسی درجے میں بڈھ بیر اور مسترزئی باڑہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں کل چھ سو چوہتر (۶۷۴) کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہری پور، مانسہرہ، ایبٹ آباد، صوابی، لوئر دیر، کوہاٹ، شانگلہ، بٹگرام، اور کرک میں چند ایک کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ میٹنگ میں اس حوالے سے ہیلتھ ڈائریکٹریٹ کی جانب سے اقدامات کو نمایاں کامیابی کی وجہ قراردیا گیا۔ جس میں جنوری سے شروع مہم کے تحت تمام اضلاع کے ساتھ ڈینگی ایکشن پلان ۲۰۱۹ شیئر کیا گیا، تمام متعلقہ اداروں کو مہم کا حصہ بنانے کیلئے انیس محکموں کو ٹی او آرز بھیجے گئے، ہر ضلع سے دو اور ایم ٹی آئی سے تین ڈاکٹرز کو ڈینگی کے کیسز کی مینجمنٹ اور تمام متعلقہ اسٹاف کو لاروا سرویلنس، آئی آر ایس اور فوگنگ کی تربیت دی گئی، اور تمام اضلاع کو اسپرے کیمیکلز اور دیگر ضروری آلات فراہم کیے گئے، اور ہسپتالوں میں ڈینگی کیلئے مخصوص وارڈز قائم کیے گئے۔ اس طرح سے کیسز کے بارے میں اطلاعات جمع کرنے کیلئے ضلعی سطح پر فوکل پرسنز نامزد کیے گئے، اور ہیلتھ ڈائریکٹریٹ میں ڈینگی رسپانس یونٹ اور چوبیس گھنٹے مصروف عمل ڈینگی کنٹرول روم قائم کیا گیا۔ ہائی رسک یونین کونسلز میں کیس رسپانس کی سرگرمیوں کو براہ راست ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کی نگرانی میں انجام دیا گیا، اور وہاں بارہ سو اٹھاسی لیڈی ہیلتھ ورکرز، اٹھاون لیڈی ہیلتھ سپروائزرز، اور سولہ ملیریا سپروائزرز کی گھروں میں اور ان کے اردگرد نگرانی کیلئے خدمات لی گئیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ عمومی آگہی اور معلومات کیلئے مہم بھی چلائی گئی۔ان تمام اقدامات کیلئے انیس متعلقہ محکموں، ضلعی انتظامیہ، ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز (ڈی ایچ او) اور ان کے ماتحت عملے کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا۔ اس موقع پر یہ بات بھی خاص طور پر توجہ میں لائی گئی کہ کچھ میڈیکل لیبارٹریز اور ہسپتال کمرشل ازم اور ناجائز منافع خوری کی خاطر این ایس ون ٹیسٹ کی بنیاد پر ہی ڈینگی کی تشخیص کر دیتے ہیں، جبکہ ڈینگی کی تشخیص کیلئے مزید ٹیسٹ درکار ہوتے ہیں، ڈپٹی کمشنر پشاور نے بتایا کہ ایسی لیباریٹریز کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے، جن کے ٹیسٹس کے انتظامات ناقص ہیں اور وہ لوگوں سے غلط بیانی کررہی ہیں۔ پریزنٹیشن کے آخر میں یہ تجویز دی گئی کہ وزیر اعلٰی یا چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ڈینگی ٹاسک فورس اور تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ باقاعدہ میٹنگز کی جائیں، تمام متعلقہ محکموں کی جانب سے ڈینگی فوکل پرسن نامزد کیا جائے، اور ڈپٹی کمشنرز کے زیرنگرانی ڈسٹرکٹ ڈیزیز سرویلنس سنٹرز قائم کیے جائیں۔ اس موقع پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے کہا کہ ڈینگی کے روک تھام کا معاملہ صرف محکمۂ صحت کی ذمہ داری نہیں بلکہ دیگر محکمے بالخصوص لوکل گورنمنٹس، پبلک ہیلتھ، محکمۂ تعلیم، وزارت بہبود آبادی، پی اینڈ ڈی وغیرہ کا بھی کردار بنتا ہے۔ وزیر اعلٰی محمود خان نے محکمۂ صحت اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کو سراہا، اور دیگر محکموں کیلئے اس مہم میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ہدایات جاری کیں، اور محمکۂ صحت کی درخواست پر اینٹومولجسٹ کی ہائرنگ کے عمل کوفوری طور پر انجام دینے کے احکامات دیے۔