News Details
11/03/2019
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت صوبے میں شامل نئے ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل، محکموں کی توسیع ، ججوں کی تعیناتی ، نیشنل فنانس کمیشن میں ضم شدہ اضلاع کے تین فیصد حصے کی صوبے کو منتقلی اور اُسے تیزی سے بروئے کار لانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کئے گئے
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت صوبے میں شامل نئے ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل، محکموں کی توسیع ، ججوں کی تعیناتی ، نیشنل فنانس کمیشن میں ضم شدہ اضلاع کے تین فیصد حصے کی صوبے کو منتقلی اور اُسے تیزی سے بروئے کار لانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کئے گئے ۔ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹبلشمنٹ ارباب شہزاد نے وفاقی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی جبکہ سینئر صوبائی وزیر برائے بلدیات شہرام خان ترکئی، وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وزیر قانون سلطان محمد خان، وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اﷲ،وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ضم شدہ اضلاع و صوبائی حکومت کے ترجمان اجمل خان وزیر، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کامران بنگش ، وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ضیاء اﷲ بنگش، چیف سیکرٹری سلیم خان، آئی جی خیبر پختونخوا ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو، متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریز ا ور دیگر اعلیٰ حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی ۔وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ اُن کی پہلے سے جاری ہدایات پر عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے اگلے مالی سال کے صوبائی بجٹ میں ضم شدہ اضلاع کا بجٹ بھی شامل کیا جائے ،یہی ہدایت وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی کر چکے ہیں ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ضم شدہ اضلاع میں بجٹنگ کیلئے وہاں پر افسران کی مکمل ٹریننگ کی گئی ہے ۔ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹبلشمنٹ نے یقین دلایا ہے کہ ضم شدہ اضلاع کیلئے این ایف سی میں تین فیصد حصہ جو کہ تقریباً 128ارب روپے ہے، دینے کی راہ ہموار کی جائے گی ۔ وفاقی حکومت کی کمٹمنٹ ہے کہ یہ وسائل رواں ماہ کے آخر تک صوبے کو منتقل ہو رہے ہیں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ضم شدہ اضلاع میں مالی اُمور اور شفاف اخراجات کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ ضم شدہ اضلاع کے افسران مکمل طور پر اپنا ضلعی بجٹ بنا سکیں گے ۔ ارباب شہزاد نے وزیراعظم کی طرف سے یقین دلایا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کو وفاقی حکومت گرانٹ دے گی ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم ضم شدہ اضلاع کیلئے فراہم ہونے والے وسائل کا شفاف اور منصفانہ استعمال یقینی بنائیں گے ۔ اُن شعبوں میں ترقیاتی حکمت عملی کا فوری طور پر اجرا ء کریں گے جن کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی اور اُس کے فوری اثرات مرتب ہوں گے ۔ پہلے مرحلے میں17 ہزار آسامیاں تخلیق کی جائیں گی ۔ ضم شدہ اضلاع کیلئے این ایف سی سے ملنے والے وسائل کسی اور علاقے میں لگانے پر پابندی ہو گی ۔ اسی طرح 10 سالہ منصوبے کے تحت ہر سال فنڈ کی یوٹیلائزیشن یقینی بنائی جائے گی ۔ ہسپتالوں اور سکولوں کی بلڈنگز کی تعمیر نو و بحالی اور اساتذہ و دیگر سٹاف کی فراہمی بہت جلد ممکن بنائی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ضم شدہ اضلاع کے لئے مزید 7000 آسامیاں تخلیق کرنا بھی پلان کا حصہ ہے اور ان آسامیوں پر بھرتی کیلئے ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کو عمر اور تعلیم میں رعایت دی جائے گی ،انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں تاجروں کے نقصا ن کا ازالہ بھی تعمیر نو و بحالی کے مجموعی پلان کا حصہ ہو گا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ حکومت کا پلان ہے کہ ضم شدہ اضلاع میں ہی ججز کے دفاتر قائم کئے جائیں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں جو ڈیشری کیلئے مزید 907 آسامیاں تخلیق کریں گے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق سیشن جج اور سینئر سول ججوں کی تعیناتی ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ججز ان ضم شدہ اضلاع میں اپنا کام شروع کررہے ہیں آئندہ چند دنوں میں مکمل طور پر انصاف کی فراہمی کا عمل نظر آنے لگے گا اور لوگ اس سے مستفید ہوں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ وہ ضم شدہ اضلاع میں جوڈیشری کے نظام کو مز ید بہتر اور مستحکم بنانے کیلئے متعلقہ فورم پر بات کریں گے ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور فاٹا ٹریبونل کے ساتھ تمام زیر التوا کیسزاب جوڈیشری کو منتقل کئے جا چکے ہیں۔ 25 پولیس سٹیشنوں کی توسیع کر دی گئی ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے لئے مزید 393 سینئر پولیس افسران بھرتی کئے جائیں گے اجلا س کو مزید بتایا گیا کہ لیویز / خاصہ دارپوسٹ آرڈنینس تیار ہے جس کو بہت جلد کا بینہ میں پیش کیا جائے گا۔ لیویز خاصہ دار (ٹرانزیشن ) آرڈنینس اور خیبرپختونخوا خاصہ دار ریگولیشن اینڈ پروٹیکیشن آرڈنینس 2019 کو محکمہ قانون سے منظور کیا گیا ہے جس کو اگلے کابینہ اجلاس سے منظور کراکے عمل درآمد کیلئے پیش کیا جائے گا۔ مزید بتایا گیا کہ محکمہ جیل خانہ جات اور پراسکیویشن کی توسیع ہو چکی ہے ۔ آفیسرز کی تعیناتی کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے مزید 152 آسامیاں تخلیق کی جائیں گی ۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبائی اسمبلی میں ضم شدہ اضلاع کی مجموعی طور پر 25 نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ لوکل گورنمنٹ میں 702 ویلج کونسل جبکہ25 ٹی ایم ایز ہوں گے ۔ اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے اے ڈی پی میں 460 نئی سکیمز بھی ڈالی گئی ہے ۔ جن میں 1391 چھوٹی سکیمز جون تک مکمل ہونے کا قوی امکان ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت ضم شدہ اضلاع میں تعمیر نو و بحالی کیلئے وسائل فراہم کرے گی اس کے لئے بھر پور ترقیاتی حکمت عملی وضع کی گئی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ بارشوں اور سیلابوں سے جانی و مالی نقصانات کے ازالے کیلئے معاوضے کی رقم ادا کرنے کیلئے ضم شدہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پولیس اور عدلیہ کا نظام وہی ہو گا جو پورے صوبے میں نافذ العمل ہے ۔ لیویز اور خاصہ داروں کو بتدریج پولیس میں ضم کیا جائے گا اور انہیں جاب سکیورٹی دیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اسی سال ضم شدہ اضلاع میں سمال ڈیمز کی تکمیل ممکن بنائی جائے گی جس میں پانچ سمال ڈیمز جون2019 تک مکمل کرلئے جائیں گے ، اگر وسائل کی دستیابی ہوئی تو ہم 10 سمال ڈیمز بھی رواں سال مکمل کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ 15 مارچ سے تمام ضم شدہ اضلاع میں صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے جس کے تحت ضم شدہ اضلاع کے تمام (11 لاکھ) خاندانوں کو صحت انصاف کار ڈمہیا کئے جائیں گے ۔ ضم شدہ اضلاع میں ٹیلی میڈیسن کی سروس بہت جلد متعارف کرائیں گے جس کے تحت ضم شدہ اضلاع میں صحت کی 13 بنیادی سہولیات وہاں کے عوام کو میسر آئیں گی ۔ ضم شدہ اضلاع میں طلباء کو سکالرشپس دیئے جائیں گے ۔ تعلیم کے شعبے میں آئی ایم یو کیلئے ان اضلاع میں 130 نئی آسامیاں تخلیق کرنے جارہے ہیں اوران آسامیوں پر ضم شدہ اضلاع کے نوجوان بھرتی کئے جائیں گے ۔وزیراعلیٰ گزشتہ روز اپنے دورہ شمالی وزیرستان کے دوران متعد د سکیموں کا باضابطہ اعلان بھی کر چکے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ ضم شدہ اضلاع میں 19 تحصیلوں میں پلے گراؤنڈ کی بحالی اور 6 نئی تحصیلوں پلے گراؤنڈ کی تعمیر بھی بہت جلد ممکن بنائیں گے ۔ ان نئے اضلاع میں خود روزگار سکیم متعارف کر رہے ہیں جس کو آئی ٹی بورڈ خیبربینک کی معاونت سے عملی شکل دے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ڈیجٹیل سکلز روزگار کیلئے ضم شدہ اضلاع میں ٹریننگ سنٹر قائم کئے جارہے ہیں ۔ان سنٹر ز میں ضم شدہ اضلاع کے نوجوانوں کو آئی ٹی میں ہنر مندی سکھائی جائے گی جس سے ان کیلئے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے ۔ میونسپل سروسز بھی متعارف کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع کیلئے سولرائزیشن سکیم متعارف کر رہے ہیں اس سکیم کے تحت بڑے ہسپتالوں ، عوامی مقامات ، مساجد اور تبلیغی مراکز کو شمسی توانائی پر بہت جلد منتقل کیا جائے گا۔ ضم شدہ اضلاع میں اچھی حکمرانی کے ذریعے خدمات کی فراہمی کا بہترین نظام دیں گے ، عوام اب اپنے جائزکاموں کیلئے دربدرکی ٹھوکریں نہیں کھائیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ ضم شدہ اضلاع میں عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر ترقیاتی سکیمیں بنائی جائیں تاکہ نئے ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کو تیز تر فائدہ پہنچایا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع اب باضابطہ طور پر پر صوبے کا حصہ ہیں ان اضلاع کے عوام کو ترقی کے قومی دہارے میں لانا، وہاں پر صنعت، تجارت اور دوسرے ترقیاتی کاموں کی انجام دہی صوبائی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹبلشمنٹ ارباب شہزاد اور وزیراعلیٰ نے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ریفارمز اور وہاں پر قلیل وقت میں سرکاری محکموں کی توسیع اور بہتر سروس کی ڈیلیوری پر صوبائی سرکاری مشینری / افسران کو بہت سراہا ہے ۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ تمام سرکاری افسران اسی جذبے سے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کی خدمت جاری رکھیں گے اور وہاں کے عوام کے مسائل حل کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی تمام محرومیوں کے ازالہ کو اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہے ۔ قبل ازیں اجلاس کو ضم شدہ اضلاع کی تعمیر نو و بحالی ، انفراسٹرکچر کی ترقی ، سماجی خدمات کے شعبوں کی توسیع ، نئے آسامیوں کی تخلیق، لیویز اور خاصہ داروں کی جاب سکیورٹی ، نئے اضلاع کے عوام کو جلد ریلیف دینے سمیت نئے اضلا ع کو ترقی کے قومی دہارے میں لانے کیلئے مجموعی حکمت عملی پر تفصیلی بریفینگ دی گئی ۔