News Details

25/02/2019

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت ضم شدہ اضلاع کے سینیٹرز اور ایم این ایز پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی زیر صدارت ضم شدہ اضلاع کے سینیٹرز اور ایم این ایز پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مذاکرات کیلئے سب کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ضم شدہ علاقوں اور وہاں کے عوام کو ترقی کے قومی دہارے میں لانے اور اُن علاقوں کے معاشی ، سیاسی اور قانونی طور پر مکمل انضمام کی کامیاب تکمیل کے عمل کو آسان اور پرسہولت بنایا جاسکے ۔ سب کمیٹی ہر سطح پر سٹیک ہولڈرز سے رابطہ کرے گی تاکہ اُن کے خدشات دور کئے جا سکیں اور بہتر اور تیز رفتار طریقے سے انضمام کی کامیاب تکمیل کی طرف بڑھا جا سکے ۔ اجلاس میں صوبا ئی وزراء تیمور سلیم جھگڑا، شوکت یوسفزئی، مشیر برائے ضم شدہ اضلاع اجمل خان وزیر اور ضم شدہ اضلاع سے سینیٹرز اورنگزیب، ہدایت اﷲ خان، مرز ا محمد آفریدی، سجاد حسین طوری، تاج محمد آفریدی، شمیم آفریدی اور ایم این ایز گل ظفر خان، محمد اقبال خان، مومن خان، اورنگزیب ، سجاد حسین طوری، جواد حسین، محسن داوڑ، محمد جمال الدین ، علی وزیر، عبد الشکور اور گل داد خان نے شر کت کی ۔ اجلاس میں طے پایا کہ کمیٹی سابق فاٹا کی روایات کی روشنی میں انضمام کے عمل میں تیزر فتار اور کامیاب تکمیل کیلئے سفارشات مرتب کرے گی ۔ اجلاس کے شرکاء نے لیویز اور خاصہ دار کی جاب سکیورٹی اور اُن کی باقاعدہ پولیس میں شمولیت ، 10 سالہ ترقیاتی پلان ، سہولیات کی تخلیق ، سروے دوبارہ شروع کرنا ، نوکریوں کی تخلیق ، آئینی ترامیم ، ترقیاتی حکمت عملی ، منصوبوں میں کرپٹ سرگرمیوں کے حوالے سے قبائلی عوام کے تحفظات وغیرہ پر تفصیلی بات چیت کی گئی اور ضم شدہ اضلاع اور عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے وزیراعلیٰ کے اخلاص اور کوششوں کو سراہا گیا۔ منتخب نمائندوں ،سینیٹرز اور ایم این ایز نے بھی مسائل کی نشاندہی اور اُن مسائل کے حل کیلئے طریق کار وضع کرنے کے سلسلے میں وزیراعلیٰ کے عزم اور دلچسپی کو سراہا۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے ترقیاتی حکمت عملی پر سختی سے عمل درآمد کا یقین دلایاتاہم اُنہوں نے واضح کیا کہ یہ عمل قبائلی عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہو گا۔ ہم منتخب نمائندوں کے ساتھ مسلسل مشاورت جاری رکھیں گے اور ترقیاتی حکمت عملی میں ضرورت کی بنیاد پر تبدیلی کی جائے گی تاکہ نئے اضلاع کی تعمیر نو اور بحالی پر فوکس کیا جا سکے ۔ اُمید ہے کہ 10 سالہ ترقیاتی پلان نئے اضلاع کا مجموعی لینڈ سکیپ بدل کررکھ دے گا۔ حکومت 10 سال کے دوران 1228 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو سالانہ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ ہے ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ قبائلی اضلاع میں سماجی خدمات ، انسانی ترقی اور انتظامی سٹرکچر سمیت اچھی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے یقین کا اظہار کیا کہ سب کمیٹی اپنے علاقوں کا دورہ کرے گی اور ضرورت کی بنیاد پر اپنی سفارشات دے گی جسے حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ ہمارا بنیادی مقصد قبائلی علاقوں اور ان کے لوگوں کی بحالی اور تعمیر نو ہے ۔ اپنی حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم ایک پیج پر ہیں ۔ امن ہماری خواہش ہے اور امن تمام مسائل کے حل کی کنجی ہے ۔ ہمیں اتفاق رائے پیدا کرکے انضمام کو اس کی روح کے مطابق مکمل کرنا ہے ۔ صوبائی حکومت وہاں کے لوگوں کے مسائل حل کرکے دم لے گی ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم قبائلی اضلاع کی ترقی ، صوبے اور ملک کے ترقیافتہ علاقوں کے برابر لانا ، وہاں کے شہروں اور دیہات میں خدمات کا بہتر نظام کھڑا کرنا ہے ۔اچھی حکمرانی اور دیگر اقدامات سے قبائلی لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی کمائی میں بہتری آئی گے ہر کسی کو برابر کے مواقع فراہم ہوں گے ، انصاف ہر کسی کو ملے گا اور ہماری کوششوں کا مقصد غربت کا خاتمہ اور ڈیلیوری میں شفافیت اور احتساب لانا ہے ۔ ہم ان اضلاع کے سیاسی او رمعاشی استحکام کیلئے کام کریں گے ۔ قبائلی عوام کے خدشات کو دور کریں گے اگر سروے کی ضرورت پڑے گی تو وہ بھی کریں گے کیونکہ وزیراعظم قبائلی اضلاع کے عوام کی بحالی و آباد کاری ترجیحی بنیادوں پر کرنا چا ہتے ہیں۔ وہ ہمیں ترقیاتی اور معاشی سرگرمیوں کے احیاء اور روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے ہدایات دیتے ہیں،خاصہ دار اور لیوز کے اہلکاروں کا مسئلہ جلد حل کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ انضمام کا بنیادی مقصد دیر پا امن کا قیام ہے اور جب 10 سالہ پلان کے تحت اتنی بڑی رقم ترقیاتی اور بحالی کے کاموں پر خرچ ہو گی تو ترقی اور خوشحالی نظر آئے گی ۔ترقیاتی کام میں کمیشن اور بدعنوانی نہیں ہو گی ۔ ہم امن ، خوشحالی، ترقی اور لوگوں کے حقوق یقینی بنائیں گے ۔ سرکاری اداروں کو پہلے ہی وہاں پر توسیع دی جا چکی ہے اور یہ سب کمیٹی قبائلی اضلاع کے حقیقی مسائل پر فوکس کرے گی اور حکومت ان مسائل کو بتدریج حل کرے گی اور یہی سابقہ فاٹا کے انضمام کا اصل مقصد ہے ۔ <><><><><><><>