News Details
24/01/2019
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان اور گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں سابقہ فاٹا کے سات نئے اضلاع کیلئے عبوری انتظامات کالعدم قرار دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور سات نئے اضلاع بشمول چھ فرنٹیر ریجنز میں انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے متعدد فیصلے کیے گئے۔اجلاس میں 17 ہزار اضافی آسامیاں پیدا کرنے کی منظوری دی جو کہ تمام اضلاع میں آبادی کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا اور جن پر مقامی لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں منعقدہ اجلاس میں کور کمانڈر پشاور شاہین مظہر محمود ، صوبائی وزراء محمد عاطف خان، شہرام خان ترکئی ، شوکت یوسفزئی ، تیمور سلیم جھگڑا ، ہشام انعام اللہ ، وزیراعلیٰ کے مشیر اجمل خان وزیر ، چیف سیکرٹری نوید کامران بلوچ ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہزاد بنگش، انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود،آئی جی ایف سی میجر جنرل راحت نسیم ،ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عبد الطیف یوسفزئی اور دیگر حکومتی اور ملٹری حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں سابقہ فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کے مجموعی ترقیاتی پلان اور انضمام پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ، نئے اضلاع میں فرنٹیئرکانسٹیبلری اورلیویز کی باقاعدہ پولیس میں شمولیت ، پولیس ، تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میں اسامیوں کی تخلیق ، نئے اضلاع کے عوام کو ترقی کے دہارے میں لانے کیلئے جامع ترقیاتی پیکج ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں فوری نتائج کے حامل اقدامات سمیت جوڈیشل سسٹم کی توسیع، آپریشنل اور تفتیشی پولیسنگ ، صحت انصاف کارڈ کی توسیع ، مختلف منصوبوں کی سولرائیزیشن، یونیورسٹی ، میڈیکل کالج اور تدریسی ہسپتال کے قیام، شعبہ تعلیم میں آئی ایم یو کی توسیع ، کیڈٹ کالج مہمند، شعبہ صحت میں تکمیل کے قریب منصوبوں کو محکمے کے حوالے کرنے اور دیگر انتظامی اور فنکشنل مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ۔اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 247کے منسوخی کے بعد پورے ملک اور صوبے کے قوانین کو نئے اضلاع تک توسیع ہو چکی ہے ۔ضم شدہ قبائلی اضلاع اب صوبے کا حصہ بن چکے ہیں، لہٰذا ملک کے موجودہ تمام قوانین اب نئے اضلاع میں لاگو ہو گئے ہیں۔تعمیراتی کاموں کی تیزتر بحالی کیلئے وفاقی سطح پر اقدامات اُٹھائے جائینگے۔ تاکہ عملی طور پر ترقیاتی کاموں کی تکمیل اورانصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکے۔ترقیاتی اور انصاف کے نظام کی فراہمی اور توسیع کا اعلامیہ جلد جاری کیا جائیگا۔ اجلاس کو نئے اضلاع میں مختلف مسائل اور انکے حل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ عوام کی ترقیاتی انضمام پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔سپریم کورٹ کے فیصلے کو بغیر وقت ضائع کئے حقیقی معنوں میں من و عن نافذالعمل بنایا جائیگا۔اجلاس میں انتظامی اور قانونی خلاء پر کرنے پر بھی مفصل بحث کی گئی۔اور اس کے حل کیلئے طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔ اجلاس میں عدالتی نظام کو ان نئے اضلاع میں توسیع دینے اور اس کے اعلامیہ جلدی جاری کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہم نے نتیجہ خیز اقدامات اُٹھانے ہیں اور اس عمل میں کوئی کسر نہیں چھوڑنا ہے۔ ہم نے اس عبوری وقت میں وہاں کے لوگوں کے دل اور ذہن جیت لینے ہیں تاکہ مستقبل کے چیلنجز کو بر وقت حل کیا جاسکے۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ لیویز اور خاصہ دار فورس کو مجوزہ طریقہ کار کے مطابق ریگولر پولیس فورس میں لائینگے،یہ وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے، اورانہوں نے سابقہ فاٹا کے عوام سے اسکا وعدہ بھی کیاہے۔ مقامی لوگوں کیلئے مختلف پبلک سیکٹرز میں مزیدپوسٹس بھی پیدا کئے جائینگے۔وزیراعلیٰ نے شرکاء کو نئے اضلاع کے انتظامی اور سیاسی چیلنجز پر بھر پور توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی۔اجلاس میں نئے اضلاع کیلئے جوڈیشل کمپلیکس، 12ہزار لیویز اور 18 ہزار خاصاداروں کو پولیس میں شامل کرنے جبکہ 6 ہزار اضافی فورس کی منظوری سے اتفاق کیا گیا جونئے اضلاع میںآبادی کے تناسب سے تقسیم کی جائینگی۔ علاوہ ازیں نئے اضلاع میں پولیس کی ترتیب وار تعیناتی سے اتفاق کیا گیا ۔اور جوڈیشری اور پولیس دونوں کیلئے انتظامی سٹاف کی منظوری دیدی، تاہم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کور ہیڈ کوارٹر پولیس اور محکمہ داخلہ دونوں ملکر پلان کو اپنی شکل دینگے۔ وزیراعلیٰ نے پلان کے قانونی پہلؤوں کو کورکرنے کیلئے مالی اور انتظامی اقدامات اُٹھانے کی ہدایت کی۔ ضم شدہ اضلاع میں جوڈیشل فورس اور تحقیقاتی اور آپریشنل پولیسنگ کا نظام قائم کیا جائیگا، جسکو لیویز اور خاصہ داروں کی معاونت حاصل ہو گی۔ اجلاس میں ایک مکمل پیکج سے بھی اتفاق کیا گیا جسمیں نئے اضلاع کی ترقیاتی ضروریات سمیت متاثرین کی بحالی ، مکانات کی تعمیر نو ، صحت اور تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے امور پورے کئے جائینگے۔ ضم شدہ اضلاع کیلئے تعلیم اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں 7600 اضافی آسامیاں تخلیق کی جائینگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں منصوبے تیز رفتاری سے مکمل کئے جائینگے، آساتذہ، ڈاکٹروں اور معاون عملے سمیت دیگر سہولیات کی کمی پوری کی جائینگی۔ وزیراعلیٰ نے نئے اضلاع میں تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے وسائل دینے سے اتفاق کیا گیا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ تمام کام ٹائم لائن کے اندر ہونا چاہیئے جسکے لئے پی سی ون مکمل کیا جائے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ بی پی ایس ایک سے بی پی ایس پندرہ تک آسامیوں پر بھرتی کے سلسلے میں پابندی اُٹھا دی گئی ہے، اب جتنا جلدی ممکن ہو سکے گا بھرتیاں عمل میں لائی جائیگی۔ تاہم بی پی ایس 16 اور اس سے اوپر کی آسامیوں پر بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائینگی۔ اگلے ڈیڑھ ماہ میں پانچ لاکھ خاندانوں کو صحت انصاف کارڈ کی فراہمی کا عمل شروع کرایا جا ئے گا، اس یقین پر فوری عمل درآمد کیلئے وفاقی حکومت کیساتھ رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی، اجلاس میں مختلف منصوبوں کی سولرائزیشن کا معاملہ بھی کلیئر کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ 2384 آسامیوں کی تخلیق سے اتفاق کیا گیا جسکی SNEs ہنگامی بنیادوں پر تیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے پاڑہ چنار ، ضلع کرم کے ٹرامہ سنٹر کو فعال بنانے کی ہدایت کی، انہوں نے محکمہ صحت کو کرم ، میران شاہ اور مہمند کے ہسپتالوں کو اپنی تحویل میں لینے کی بھی ہدایت کی ، اور کہا کہ مذکورہ ہسپتالوں میں بنیادی ضروریات کی فراہمی کیلئے پی سی ون تیار کیا جائے۔انہوں نے سابقہ فاٹا کے دورہ کے دوران وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اعلان کردہ یونیورسٹی، تدریسی ہسپتال اور میڈیکل کالج کے قیام پر بھی تیز رفتار پیش رفت کی ہدایت کی ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ منصوبوں کیلئے پی سی ون تیار کیا جائے ، وہ خود ان منصوبو ں کا افتتاح کریں گے،۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی توسیع سے تعلیم کے شعبے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے، سکول فعال ہوں گے اور آساتذہ کی حاضری کی یقینی ہوگی۔انہوں نے سکولوں کو انکی اصل استعداد کیمطابق فعال کرنے کیلئے متعلقہ حکام کو اچانک دورے کرنے کی ہدایت کی ، اور واضح کیا کہ ہمیں کاغذی کاروائیوں سے باہر نکل کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں موجودہ پالیسی کو نئے اضلاع تک توسیع دی جائیگی۔ اجلاس میں متاثرین کی واپسی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ، وزیراعلیٰ نے اس مقصد کیلئے مکمل سروے کرنے کی ہدایت کی جسمیں تمام تر نقصانات سمیت انتظامی اور دیگر مسائل کی مکمل تفصیل ہونی چاہیئے تاکہ متاثرین کو معاوضہ دیا جاسکے۔ اجلاس میں آئی ڈی پیز کیلئے فوڈ پیکج اور اسسٹنٹس الاؤنس سے بھی اتفاق کیا گیا جو محکمہ ریلیف فراہم کریگا، وزیراعلیٰ نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ محکمہ صحت اور تعلیم کے ساتھ اجلاس کریں اور مسائل کی نشاندہی کریں اور انکے حل کیلئے حتمی سفارشات پیش کریں،انہوں نے مختلف شعبوں میں ایسی جاری سکیموں کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی جن پر 80فیصد کام ہو چکا ہے۔