News Details
06/11/2018
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ نئے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کے صوبے میں انضمام اور اُنہیں ترقی کے دہارے میں لانے کیلئے انتہائی سنجیدگی سے کام جاری ہے ۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ نئے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کے صوبے میں انضمام اور اُنہیں ترقی کے دہارے میں لانے کیلئے انتہائی سنجیدگی سے کام جاری ہے ۔ نئے اضلا ع کا مکمل انضمام اگرچہ ایک چیلنج ہے تاہم اگر عزم ہو تو مشکل کام بھی ہو سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں سطح پر کا م ہو رہا ہے ۔ آئندہ چند ماہ میں تمام صوبائی محکمے نئے اضلاع تک منتقل ہو جائیں گے ۔ تحریک انصاف کے علاوہ ماضی کے وزراء اعلیٰ نے اپنے ضلع کی ترقی پر توجہ دی مگر ہم اس کے برعکس پورے صوبے کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ آئندہ ترقیاتی پروگرام میں ہر ضلع کو میگا پراجیکٹ دیں گے ۔ سیاحت کا تیز رفتار فروغ ترجیح ہے ۔ اس سلسلے میں مرکزی اور صوبائی سطح پر ٹاسک فورسز تشکیل دی جا چکی ہیں ۔ 22 کے قریب نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ صوبے میں جنگلات کی کٹائی کا تاثر غلط ہے ۔ کسی کو جنگلات کاٹنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ہم ایک ارب پودے لگا چکے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں میں مزید ایک ارب لگائیں گے ۔ لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مزید مضبوط کر رہے ہیں ۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایک ہی سسٹم ہو گا۔ آئندہ دو ہفتوں تک مسودہ مکمل ہو جائے گاجو اسمبلی میں پیش کریں گے ۔ صوبائی حکومت کا تجویز کردہ گلگت ، دیر تا چکدرہ روڈ بڑی اہمیت رکھتا ہے یہ خطہ مستقبل میں تجارت اور صنعت کا حب بننے جارہا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں میجر جنرل سمریز سالک کی سربراہی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، متعلقہ صوبائی محکموں کے انتظامی حکام اور دیگر اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ شرکاء کو مختلف صوبائی محکموں میں اصلاحات ، آئندہ کے اہداف ، نئے اضلاع کے صوبے میں انضمام اور صوبے میں مجموعی طرز حکمرانی کے حوالے سے تفصیلی بریفینگ دی گئی ۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر شرکاء کی طرف سے پوچھے گئے مختلف سوالوں کے جوابات بھی دیئے اور صوبائی حکومت کی پالیسیوں اور آئندہ کے اہداف پر روشنی ڈالی ۔سیاحت کے حوالے سے صوبائی حکومت کے پلان کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ کالام ، کمراٹ ، چترال اور ہزارہ میں 22 نئی سائٹس کا انتخاب کیا جا چکا ہے ۔ اس سلسلے میں قائم ٹاسک فورس کی سربراہی وہ خود کر رہے ہیں اور متعلقہ محکموں کو بھی اس ٹاسک فورس میں نمائندگی دی گئی ہے اُمید ہے کہ آئندہ تین سالوں کے اندر ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ سیاحت سے خاطر خواہ وسائل پیدا کر سکیں۔ کرک جیسے پسماندہ مگر قدرتی وسائل کے حامل اضلاع کی ترقی کے حوالے سے سوال کے جواب پر وزیراعلیٰ نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ کرک جیسے اضلاع پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی بدقسمتی سے تحریک انصاف سے پہلے وزیراعلیٰ اپنے ضلع پر فوکس کرتے اور ایم پی ایز گلی نالی کی تعمیر میں مگن رہتے مگر ہم نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ میں پورے صوبے کا وزیراعلیٰ ہوں اور پورے صوبے کی ترقی میر ی خواہش اور ترجیح ہے ۔ صوبائی حکومت کی ترجیح ہے کہ کرک کو سب سے پہلے گیس کی سہولت فراہم کریں ۔ کرک میں پانی کا مسئلہ بھی حل کیا جائے گا۔ اُنہوں نے یقین دلایا کہ ان پانچ سالوں میں کرک کی حالت بدل جائے گی ۔ پن بجلی منصوبوں کے حوالے سے ایک سوال پر وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبے میں 350 ڈیمز کی تعمیر محض ایک پروپیگنڈہ ہے ۔ یہ اصل میں 350 پن بجلی کے چھوٹے منصوبے تھے جن پر صوبائی حکومت کام کر چکی ہے اور پن بجلی کے مزید منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ پچھلی حکومت میں وفاق کی طرف سے رکاوٹیں درپیش تھیں مگر اس بار وفاق میں بھی اپنی حکومت ہے اسلئے ہم بجلی کے منصوبوں پر بھر پور فوکس کر رہے ہیں۔ 100 روزہ پلان میں بھی اس شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جسے ہم عنقریب عوام کے سامنے رکھیں گے ۔ لینڈ کمپیوٹرائزیشن کے حوالے سے پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ پہلے مرحلے میں مردان میں لینڈ کمپیوٹرائزیشن کی گئی ہے ۔ کوشش ہے کہ اس منصوبے کو صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی جلد توسیع دیں۔بی آر ٹی کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ یہ ہماری اپنی حکومت کا منصوبہ ہے جس کی تیز رفتار تکمیل ترجیح ہے ۔اُمید ہے کہ آئندہ مارچ ۔ اپریل تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گااور عوام کے تحفظات دور ہو جائیں گے ۔سی ایم ہاؤس کو عوام کیلئے کھولنے کے حوالے سے ایک سوال پر وزیراعلیٰ نے کہاکہ اس وقت بھی وہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں رہائش پذیر نہیں ہیں ۔ جہاں تک تعلق ہے وزیراعلیٰ ہاؤس کو عوام کیلئے کھولنے کا تو اس سلسلے میں کمیٹی بنا دی گئی ہے جو کام کر رہی ہے ۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ نے کہاکہ دیا مر اور کوہستان کے درمیان حدود کے تنازعہ پر بھی بات ہو چکی ہے ۔ وفاقی سطح پر اس سلسلے میں کا م ہورہا ہے معاملہ جلد ہو جائے گا۔ احتساب کمیشن کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اس نے سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش بھی کیا ہے ۔ 2013 میں ہماری حکومت نے ضرورت محسوس کی تھی تو احتساب کمیشن بنایا گیا تھاچونکہ اس وقت مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔ نیب کام کر رہا ہے اسلئے احتساب کمیشن کی ضرورت نہیں رہی اس کی جگہ ہم خیبرپختونخوا اینٹی کرپشن محکمے کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف پر عزم ہیں ۔بی آر ٹی کی لاگت کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت کا بی آر ٹی پراجیکٹ دیگر تمام منصوبوں سے منفرد اور زیادہ دیر پا ہے ۔67 ارب روپے کی مجموعی لاگت میں بسوں کی لاگت بھی شامل ہے جو حکومت کی اپنی ہوں گی ۔ اسی لاگت میں مین کوریڈور سے منسلک چھ فیڈر روٹس ، پرانی بسوں کے سکریپ کا منصوبہ اور دیگر تمام فیچرز جو ملک کے دیگر میٹرو سروس میں موجود نہیں ہیں ، کی لاگت بھی اسی کے اندر ہے ۔ علاوہ ازیں اس منصوبے میں انٹیلی جنس سسٹم بھی وضع کیا جائے گا۔ اگر ان تمام فیچرز کو یک جاں کرکے دیکھیں اور پھر اس نوعیت کے دیگر منصوبوں کے ساتھ موازنہ کریں تو بی آر ٹی کی لاگت معقول بلکہ دیگر منصوبوں کم ہے ۔