News Details
14/09/2018
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت اجلاس میں رواں مالی سال کے دوران جاری ترقیاتی سکیموں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی زیر صدارت اجلاس میں رواں مالی سال کے دوران جاری ترقیاتی سکیموں کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سوات موٹروے،بس ریپڈ ٹرانزٹ پشاور، بلین ٹری سونامی، چشمہ رائٹ بنک کینال، گومل زام ڈیم، کھیلوں کے میدان اور ہائر سیکنڈری سکولوں کی اپ گریڈیشن جیسے فلیگ شپ پراجیکٹس کیلئے خاطر خواہ وسائل مختص کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے صوبے کی ترقی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے سیکٹر وائز ترقیاتی منصوبہ بندی کرنے اور کسی بھی نئی سکیم کیلئے اُس سکیم کی مجموعی لاگت کا کم از کم 25فیصد ضرور مختص کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے ۔انہوں نے سکیموں کا سکوپ بڑھانے کی غرض سے سکیم پر نظر ثانی کی اجازت نہ دینے کی تجویز سے اصولی اتفاق کیا ہے تاکہ ترقیاتی عمل بروقت مکمل ہواور عوام کو ریلیف مل سکے،انہوں نے صوبے کی مالی بنیاد میں اضافے کیلئے ایکسائز، بورڈ آف ریونیو، معدنیات، سیاحت، توانائی اور دیگر پیداواری شعبوں پر خصوصی توجہ دینے جبکہ ٹیکس جمع کرنے کا مؤثر طریق کار وضع کرنے اور خیبرپختونخواریونیو اتھارٹی کی استعداد کار میں اضافے کی ہدایت کی ہے، انہوں نے اے جی این قاضی فارمولا پر عملدرآمد کرانے اور وفاق سے وابستہ صوبے کے دیگر حقوق حاصل کرنے کیلئے مربوط جدوجہد کا عندیہ دیا ہے انہوں نے اس سلسلے میں ہوم ورک مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ ان مسائل کو متعلقہ وفاقی فورمز پر اُٹھایا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں منعقدہ اجلاس میں صوبائی وزراء محمد عاطف خان، شہرام خان تراکئی، تیمور سلیم جھگڑا، چیف سیکرٹری نوید کامران بلوچ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری شہزاد بنگش، سیکرٹری خزانہ شکیل قادر اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔اجلاس کو صوبائی بجٹ برائے مالی سال 2018-19 اور ترقیاتی پلان پر بریفنگ دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ چار ماہ کے انٹرم بجٹ میں مجموعی طور پر مختلف شعبوں کی 157جاری سکیموں کو ترجیح دی گئی تھی جو تکمیل کے مراحل میں ہیں، اس وقت مجموعی طور پر 1279سکیمیں عمل میں ہیں جن کی تیز رفتار تکمیل ترجیح ہو گی، وزیر اعلیٰ نے ترقیاتی حکمت عملی کو مزید بہتر اور حقیقت پسندانہ بنانے اور پسماندہ اضلاع کی ترقی پر زور دیا، انہوں نے ہدایت کی کہ ترقیاتی عمل میں معیار پر سمجھوتہ کئے بغیر جاری سکیمیں تیز رفتاری سے مکمل کی جائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور ان کو درپیش مشکلا ت کا ازالہ ممکن ہو سکے، انہوں نے ہدایت کی کہ محکموں کی ذمہ داریاں اور اہداف واضح ہونے چاہئیں۔ ترقیاتی کاموں میں ڈپلیکیشن سے اجتناب کیا جائے کیونکہ بعض اوقات ایک ہی کام مختلف محکمے کر رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وسائل اور وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ انہوں نے ترقیاتی عمل میں حائل قانونی رکاوٹوں اور پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے ضروری قانون سازی کی تجویز سے بھی اتفاق کیا اور کہا کہ محکموں کو قانونی معاونت ہونی چاہئیے تاکہ ہم تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ سکیں، وزیر اعلیٰ نے سرکلر ریلوے پراجیکٹ، چشمہ لفٹ کنال سکیم، آب نوشی کے منصوبوں اور ملاکنڈ اور ہزارہ میں سیاحت کی ترقی پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا، انہوں نے ویسٹ ٹو انرجی پراجیکٹس کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ کوڑا کرکٹ کو بطور خام مال استعمال میں لا کر نا صرف سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ شہر کی صفائی بھی منظم اندز میں ہو جاتی ہے ۔ محمود خان نے صوبے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے صوبائی حکومت کے پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مالی بنیاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور پیداواری شعبوں کی ترقی کیلئے تیز رفتار اقدامات کی ہدایت کی، انہوں نے ٹیکس جمع کرنے کی شرح میں اضافے کیلئے کیپرا کی استعداد بڑھانے، اعلیٰ استعداد کے حامل ماہرین کی خدمات حاصل کرنے، اہداف کا واضح تعین کرنے اور ان اہداف کے حصول کیلئے پیش رفت کا مسلسل جائزہ لینے کی ہدایت کی، انہوں نے وفاقی حکومت سے وابستہ صوبے کے حقوق کے ضمن میں مربوط تیاری کی ہدایت کی اور کہا کہ ہم نے اپنا حصہ لینا ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت کی جدوجہد کو آگے لیکر جانا ہے کیونکہ اس صوبے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے پچھلی وفاقی حکومتوں میں صوبے کے حقوق کے معاملے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا تاہم اُمید ہے کہ اس بار مرکز سے اپنے حقوق لینے میں دشواری نہیں ہو گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت نے آئندہ بجٹ کیلئے خصوصی تیاری کرنی ہے، جامع ترقیاتی حکمت عملی کے تحت آئندہ سال 8سے 10میگا پراجیکٹس لانے پر غور کر رہے ہیں جن کے لئے وسائل کی ضرورت ہو گی ۔ اس موقع پر اجلاس کے شرکاء کو اے جی این قاضی فارمولے پر بھی بریفینگ دی گئی اور بتایا گیا کہ اس فارمولہ پر عمل درآمد کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی مگر اس کا کوئی اجلاس نہ ہو سکا جس کی وجہ سے مسئلہ جوں کا توں رہا۔ پی ٹی آئی کی سابق صوبائی حکومت نے اس سلسلے کو دوبارہ زندہ کیا جسے اب بھر پور طریقے سے متعلقہ وفاقی فورمز پر اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔