News Details

07/08/2018

مویشیوں اور ناقابل برآمد دیگر اشیاء کی صوبے سے باہر ترسیل پر فوری پابندی عائد

نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخواسابق جسٹس دوست محمد خان نے مویشیوں اور ناقابل برآمد دیگر اشیاء کی صوبے سے باہر ترسیل پر فوری پابندی عائد کی ہے ۔ اُنہوں نے قابل برآمد اشیاء کی سمگلنگ کے خلاف بھی اقدامات اُٹھانے اورغیر مصدقہ اور غیر مستند اجازت نامے منسو خ کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ غیرمجاز راستوں سے اشیاء کی صوبے سے باہر ترسیل پر بھی پابندی کے احکامات جاری کئے ہیں۔ اُنہوں نے متعلقہ حکام کو فیصلے پر عمل درآمند یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ عوام کو زندگی گزارنے کا مناسب ماحول دینا ، مناسب قیمت پر اشیائے ضروریہ اور سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ غیر مصنوعی قلت آئین کی خلاف ورزی اور غریب کے ساتھ ظلم ہے ۔آئین اور قانون نے تجارت کا راستہ متعین کرلیا ہے جس کی خلاف ورزی انتہائی قابل مذمت فعل ہے کیونکہ اس کی وجہ سے عام آدمی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں مویشیوں اور دیگر اشیائے خوردو ونوش کی سمگلنگ کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرر ہے تھے ۔ نگران صوبائی وزراء انوار الحق، اسد اﷲ چمکنی ، متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریز ، کمشنر پشاور ، سی سی پی او پشاور، ڈائریکٹر جنرل لائیو سٹاک اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی ۔نگران وزیراعلیٰ نے مویشیوں اور دیگر اشیائے خورد کی سمگلنگ کی وجہ سے قربانی کے جانوروں اور اشیائے ضروریہ کی قلت اورقیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے حوالے سے بڑھتی ہوئی عوامی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کیااجلاس میں قابل برآمد اور ناقابل برآمد اشیاء ، مقامی لوگوں کی ضروریات ، اشیائے خوردو نوش برآمد کرنے کے حوالے سے متعلقہ قوانین اور دیگر اہم اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مویشی قابل برآمد ہیں ہی نہیں تاہم دیگر اشیائے خوردونوش جن کو برآمد کرنے کی اجازت ہے اُس کیلئے بھی قواعد وضوابط رکھے گئے ہیں۔ غیر معروف راستوں کے ذریعے سمگلنگ تو بذات خود ایک جرم ہے جس کا تدارک ہونا چاہیئے ۔ نگران وزیراعلیٰ نے مویشیوں کی صوبے سے باہر ترسیل پر فوری پابندی کا فیصلہ کیااور ہدایت کی کہ پولیس اورایف سی مشترکہ چیک پوائنٹس قائم کریں اور مویشیوں کی افغان منتقلی کو روکیں۔ عید الاضحی کے دن قریب ہیں اور مارکیٹ میں مقامی لوگوں کو جانور خریدنے کے سلسلے میں بڑی تکلیف کا سامنا ہے ۔عوام کو دوگنا زائد قیمت ادا کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے جس کا فوری تدارک ضروری ہے ۔ مڈل مین کا کردار معاشرے کیلئے بہت خطرناک بن چکا ہے ۔ مصنوعی قلت پید اکرکے مسائل اور تکالیف کے مارے غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا ظلم ہے ۔ ہمیں سب سے پہلے مقامی لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھنا چاہیئے اور انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا چاہیئے۔اُنہوں نے غیر مستند اجازت ناموں اور غیر معروف راستوں سے اشیاء برآمد کرنے کے خلاف سخت اقدامات اُٹھانے کی بھی ہدایت کی اور واضح کیا جن روٹس کی اجازت دی گئی ہے اُن کے علاوہ کسی بھی روٹ کے ذریعے اگر کوئی چیز باہر لے جانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ چوری کے ذمرے میں آتی ہے ۔ اگر کسی کے پاس مستند اجازت نامہ ہے اور قانون کے مطابق کوئی چیز برآمد کر رہا ہے تو پھر چوری کے راستے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نگران وزیراعلیٰ نے مارکیٹ میں اشیائے خودو نوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کا بھی نوٹس لیا اور کہاکہ سمگلنگ کی وجہ سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ۔انہوں نے تمثیلاً کہا کہ مارکیٹ میں ٹماٹر کا 115 روپے فی کلو ہونا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ٹما ٹر سمگل ہو رہے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اگر عوام کو ریلیف نہیں ملتا تو یہ نا انصافی ہو گی ۔ہمیں حالات کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیزر فتار اقدامات کرنے ہیں ورنہ امن و امان کی صورتحال پید ا ہو سکتی ہے ۔ نگران وزیراعلیٰ نے مذکورہ فیصلوں پر حقیقی معنوں میں بلا تاخیر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے چیف سیکرٹری آفس ، سیکرٹری داخلہ ، ضلعی انتظامیہ ، پولیس ، ایف سی ، کسٹم سمیت تمام متعلقہ محکموں کو باہمی مشاورت اور ربط کے ذریعے نظر آنے والے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے ۔نگران وزیراعلیٰ نے سرحدوں سے ملحقہ علاقوں پر خصوصی توجہ دینے اور متعلقہ کمشنرز کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں مویشیوں کی سمگلنگ پر قابو پانے کیلئے دیر پا اقدامات کی ہدایت کی اور کہاکہ جس طرح صوبے میں مرغی کی قیمتیں اعتدال پر آرہی ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قابو کرنا بھی ناگزیر ہے تاکہ عوام الناس کو ریلیف مل سکے ۔ اُنہوں نے کہا کہ کم ازکم عید الاضحی کے تیسر ے دن تک سمگلنگ کے خلاف کڑی نگرانی ہونی چاہئے ۔ہم عوام کے مفاد میں اقدامات کر رہے ہیں اورآنے والی حکومت کو بھی ایک روڈ میپ مل جائے گا۔ سابق جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ اب قبائلی علاقے صوبے میں شامل ہو چکے ہیں ۔علاقہ غیر کا تصور ختم ہو چکا ہے اب یہ بھی سوک سوسائٹی میں آگئے ہیں اسلئے فیصلوں پر عمل درآمد میں کہیں بھی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے ۔