News Details

31/08/2018

دارالامانو ں میں انتظامی پیچیدگیوں ، نگرانی اور تحفظ کے کمزور نظام اور دیگر مسائل کا سختی سے نوٹس

نگران وزیراعلی خیبر پختونخوا سابق جسٹس دوست محمدخان نے صوبے میں دارالامانو ں میں انتظامی پیچیدگیوں ، نگرانی اور تحفظ کے کمزور نظام اور دیگر مسائل کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے بے سہارا خواتین کے بھر پور تحفظ، مناسب خوراک کی فراہمی، تعلیم و تربیت اور علاج معالجے سمیت دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ایس او پیز بلا تاخیر مکمل کرنے جبکہ دارالامانوں میں تعینات مرد عملے کو فوری طور پر ہٹا کر خواتین عملے کی تعیناتی کی ہدایت کی ہے انہوں نے دارلامانوں کو متعلقہ قانون اور قواعد و ضوابط کے مطابق فعال بنانے کیلئے محکمہ لوکل گورنمنٹ سے واپس لینے کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلے میں سفارشات کیلئے چار اراکین پر مشتمل اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی او ررواں ہفتے نگران صوبائی کابینہ کے اجلاس میں حتمی فیصلے کا عندیہ دیا ہے وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس میں سیکرٹری سوشل ویلفیئرنے دار الامانوں پر تفصیلی بریفنگ دی اور انکے مسائل سے آگاہ کیا نگران صوبائی وزیر سارہ صفدر، وزیراعلیٰ کی ایڈوائزر آسیہ خان، پرنسپل سیکرٹری برائے وزیراعلیٰ اکبرخان، ڈپٹی کمشنر پشاور اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔نگران وزیراعلیٰ نے دارالامان میں پنا ہ لینے والی بے سہارا خواتین کو مکمل تحفظ دینے اور دارالامانوں کی کڑی نگرانی کی ہدایت کی اور تنبیہ کی کہ ہم خواتین کے تحفظ اور سلامتی پرسمجھوتہ نہیں کر سکتے ۔ اُنہوں نے کہاکہ تعلیم و تربیت اور نگران کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے منفی رجحانات کو فروغ ملتا ہے جس کی پیش بندی ناگزیر ہے ۔ اُنہوں نے دارالامانوں میں مردوں کے داخلے پر پابندی لگاتے ہوئے ہدایت کی کہ چوکیدار سے لیکر منتظم تک جملہ سٹاف خواتین پر مشتمل ہونا چاہیئے ۔ محافظ کے طور پر لیڈی کانسٹیلبرز کی خدمات لی جائیں ۔ اُنہوں نے مسائل کی شکار خواتین اور بے سہارا بچیوں کو صاف ستھرا اور پرامن ماحول دینے کی ہدایت کی اور کہاکہ اگر ان کے پاس کوئی دوسرا سہارا ہوتا تو یقینی طور پر یہ دارالامان میں پناہ نہ لیتیں۔ خواتین کو وہ مقام ملنا چاہیئے جو اُنہیں اسلام نے دیا ہے بے سہارا خواتین کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ معاشرتی سٹیٹس کو بلند کرنے والے اداروں کو مکمل طور پر فعال ہونا چاہیئے ۔ حکومت وسائل خرچ کرتی ہے تو اس کے مطلوبہ نتائج بھی نظر آنے چاہئیں سابق جسٹس دوست محمد خان نے دارالامانوں کو بزنس رولز کے مطابق فعال کرنے اور اس سلسلے میں ذمہ داریوں کا کل وقتی تعین کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس مقصد کیلئے دارالامانوں کو لوکل گورنمنٹ سے واپس لینے کا اُصولی فیصلہ کرتے ہوئے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں حتمی فیصلے کا عندیہ دیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس مقصد کیلئے اگر قانون میں ترمیم کی ضرورت پڑی تو بھی آرڈنینس منظور کرالیں گے ۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ یہ بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے جس کو نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ بے سہارا خواتین کا تحفظ اور اُن کو سہولیات کی فراہمی آئینی ذمہ داری ہے جسے ایمانداری کے ساتھ انجام دیا جائے ۔ دریں اثناء نگران وزیراعلیٰ نے ویمن ورکنگ ہاسٹل میں قواعد وضوابط کے خلاف خواتین کے قابض ہونے اور بقایاجات کی عدم ریکوری کے معاملے کا بھی نوٹس لیا ۔ اُنہوں نے ڈیفالٹر ز خواتین سے بقایاجات کی ریکوری کی ہدایت کی اور تنبیہ کی کہ رولز کے مطابق خواتین کو رہائش کی سہولت دی جائے ۔ 6 ماہ سے زائد قیام رولز کے خلاف ہے کیونکہ اس کی خلاف ورزی سے دوسری خواتین کی حق تلفی ہوتی ہے ۔ اُنہوں نے واضح کیاکہ یہ مستقل رہائش نہیں ہے کہ خواتین آکر قابض ہو جائیں اورمفت میں رہیں۔ جب قانون میں ایک مدت کا تعین کیا جا چکا ہے تو اس پر عمل درآمد ہونا چاہیئے ۔ قبل ازیں سیکرٹری سوشل ویلفیئر نے بریفینگ دیتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ کو بتایا کہ ایبٹ آباد، مردان ، سوات ، ہری پور، مانسہرہ اور پشاور میں مجموعی طور پر چھ دارالامان کام کر رہے ہیں جبکہ چترال اور بنوں میں دو دارالامان زیر تعمیر ہیں۔ دارالامانوں میں شیلٹر ، خوراک ، کپڑے اور طبی سہولیات بذریعہ ریفرل ، مذہبی تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت پر مشتمل خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ مختلف دارلامانوں میں اس وقت مجموعی طور پر 242 خواتین اوربچے استفادہ کر رہے ہیں۔